سوُرہ رحمٰن
(کا پیغام)
جوش ملیح آبادی
*
اے فنا انجام انسان کب تجھے ہوش آئے گا ۔۔ تیرگی میں ٹھوکریں آخر کہاں تک کھائے گا
اس تمرد کی روش سے بھی کبھی شرمائے گا ۔۔ کیا کرے گا سامنے سے جب حجاب اٹھ جائے گا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
یہ سحر کا حسن یہ سیارگاں اور یہ فضا ۔۔ یہ مُعطر باغ، یہ سبزہ یہ کلیاں دل رُبا
یہ بیاباں، یہ کھلے میدان، یہ ٹھنڈی ہوا ۔۔ سوچ تو کیا کیا، کیا ہے تجھ کو قدرت نے عطا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
خلد میں حوریں تری مشتاق ہیں آنکھیں اٹھا ۔۔ نیچی نظریں جن کا زیور، جن کی آرائش حیا
جن و انساں میں کسی نے بھی نہیں جن کو چھوا ۔۔ جن کی باتیں عطر میں ڈُوبی ہوئی جیسے صبا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
اپنے مرکز سے نہ چل منہ پھیر کر بہر خدا ۔۔ بھُولتا ہے کوئی، اپنی انتہا اور ابتدا
یاد ہے وہ دور بھی تجھ کو کہ جب تو خاک تھا ۔۔ کس نے اپنی سانس سے تجھ کو منور کیا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
سبز گہرے رنگ کی بیلیں چڑھی ہیں جا بجا ۔۔ نرم شاخیں جھُومتی ہیں، رقص کرتی ہے صبا
پھل وہ شاخوں میں لگے ہیں، دل فریب و خوش نما ۔۔ جن کا ہر ریشہ ہے قند و شہد میں ڈوبا ہوا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
پھُول میں خوشبو بھری، جنگل کی بُوٹی میں دوا !۔ ۔۔ بحر سے موتی نکالے صاف روشن خوش نما
آگ سے شُعلہ نکالا، ابر سے آب صفا ۔۔ کس سے ہوسکتا ہے اُس کی بخششوں کا حق ادا
کب تک آخر اپنے رب کی نعمتیں جھٹلائے گا
ہر نفس طوفان ہے، ہر سانس ہے اک زلزلہ ۔۔ موت کی جانب رواں ہے زندگی کا قافلہ !۔
مُضطرب ہر چیز ہے، جنبش میں ہے ارض و سماٗ ۔۔ ان میں قائم ہے تو تیرے رب کے چہرے کی ضیاٗ
No comments:
Post a Comment