Recommended Readings مفید مضامین
ماں کے نام سے پکارے جانے والے...کہنا ضروری ہے
… حنا خواجہ بیات ۔۔۔ بشکریہ روزنامہ جنگ
12/19/2010
کون کہتا ہے کہ انسانیت مر چکی ہے؟ کون کہتا ہے کے اس قوم میں نیک نیت لوگ نہیں ہیں؟ لکھے ہوئے جملوں کی ایک پکار پر دل کھول کر رکھ دینے والوں کے جواب اس بات کا ثبوت دے رہے تھے کہ یہ وہی قوم ہے جس نے جان و مال کے نذرانے دے کر یہ ملک حاصل کیا۔۔۔ یہ انہیں ماں باپ کی اولاد ہیں جنہوں نے خیبر سے لے کر بنگال تک اپنی آنے والی نسلوں کے کل کے لیے اپنے آج کی قربانی دی! لاہور، کراچی، اسلام آباد اور پشاور سے لے کر، امریکہ اور کینیڈا تک سے آنے والے فون اور emails ایک ہی بات کہہ رہے تھے کہ صبا ہماری بچی ہے۔۔۔ اس کا علاج ہم کروائیں گے!
12 دسمبر کو چھپنے والے اس کالم میں 15 سالہ صبا کا ذکرتھا جسے آپریشن کے لیے فوری مدد درکار ہے۔ راتوں رات، دنیا بھر سے ہمیں فون اور خطوط موصول ہونے لگے۔ کئی ڈاکٹروں سمیت، بہت سے لوگوں نے یہ بیڑا اٹھانے کی پیشکش کی ، جن میں ان کی پیشہ ورانہ خدمات اور ہسپتال کے اخراجات بھی شامل تھے۔ ان سب دردمند دل والوں کا تہِ دل سے شکریہ کیونکہ ایک صبا ہی نہیں، آپ کے ذریعے کئی اور بچیاں بھی روبہ صحت ہو پائیں گی۔ اتنے سالوں میں اس کالم کے قارئین اور” الجھن سلجھن “ کے ناظرین کا ایک ایسا بینک بن چکا ہے جو کئی بچوں کی تعلیم اور علاج کے لیے اپنے آپ کو وقف کر چکا ہے اور جنہیں ہم وقتا فوقتاََ ایسے مستحق افراد کی مدد کیلئے پکارتے رہتے ہیں۔ اللہ آپ سب کو جزا دے۔ آمین!۔
ان سب فون کالز میں ایک کال ایسی تھی جس نے مجھے ایک عرصے کے بعد ، اپنے کسی قومی ادارے پر فخر کرنے کا موقع دیا۔۔۔ یہ کال تھی ڈائریکٹر بیت المال کی۔ مجھے ازحد خوشی ہوئی کہ صبا کے والد کی درخواستیں شاید ان تک نہ پہنچی ہوں مگر اس کالم کی پکار پر انہوں نے لبیک کہا اور ہمارے ذریعے صبا کے گھروالوں سے رابطہ کیا۔ اس ساری کارروائی میں چیئرمین بیت المال کا کردار قابل تحسین ہے جنہوں نے خود مجھ سے کئی بار بات کی اور اپنے عملے سے لمحہ لمحہ خبر لیتے رہے۔ بقول صبا کے ماموں، بیت المال کے افسران نے سارے معاملات طے کر لیے ہیں اوراب وہ دن دور نہیں جب صبا ایک نئی زندگی کی طرف گامزن ہو گی!
یہی تو وہ معاشرہ ہے جس کے خواب ہم دیکھتے ہیں! یہی تو وہ دردمندی ہے جس کا درس دین ہمیں دیتا ہے! یتیموں، مریضوں، محتاجوں اور بیواوٴں کی کفالت کا درس۔
دین یہ کہتا ہے کہ یتیم کی کفالت اولین کارِ ثواب ہے مگر قانون کہتا ہے کہ اڈاپشن منع ہے۔ دین کہتا ہے کے لاوارث کے ساتھ شفقت سے پیش آنا احسن عمل ہے لیکن قانون کہتا ہے کہ آپ کسی لاوارث بچے کوماں کی آغوش نہیں دے سکتے۔ ایسے کئے بے اولاد جوڑے ہیں جوکسی یتیم کو گود لینا چاہتے ہیں۔ کئی لوگ ہیں جو کسی لاوارث کو ایک شناخت دینا چاہتے ہیں۔ کئی قابل اورذہین عورتیں ہیں جو بن ماں کے بچے کو ماں کا پیار دینا چاہتی ہیں۔ مگر قانون انہیں روکتا ہے۔ یا پھر، جھوٹ بولنے پر مجبور کرتا ہے!!۔
یتیم خانوں ، فلاحی اداروں اور کئی ڈاکٹرز کے ذریعے بہت سے لاوارث اور یتیم بچوں کو گھر بھی مل جاتا ہے اور خاندان بھی۔ مگر اسی بچے کو جب اسکول جانا پڑتا ہے تو داخلہ نہیں ملتا۔ کیونکہ اس کے لیے حکومت کا ب فارم درکار ہوتا ہے! ایک بچہ، جس کے ماں باپ کا ہی پتہ نہیں، اس کا ب فارم مانگنا کیا دانشمندی ہے؟ جس کی ولدیت ہی کا علم نہیں اس کے باپ کا نام پوچھنا کیا عقلمندی ہے؟ یہی وہ مجبوری ہے جو جھوٹ بلواتی ہے! کبھی باپ کے نام کے کالم میں فرضی نام ڈال دیا جاتا ہے۔کبھی اسے مرحوم بتایا جاتا ہے۔ اور کبھی لے پالک والدین کو حقیقی ماں باپ لکھوایا جاتا ہے۔ اس کاغذ کے ب فارم پر ولدیت کے خانے میں پتھر کی لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔ صرف اور صرف باپ کے نام کی گنجائش رکھی جاتی ہے، کفیل کی نہیں۔ جس شریعت پر اس قانون کی بنیاد رکھی گئی ہے، وہ تو کفالت کو فروغ دیتی ہے تو پھر ہم منطق اورمحبت دونوں کو کیوں جھٹلاتے ہیں؟ ہم یہ کیوں تسلیم نہیں کرتے کہ بدلتے وقت اور حالات کے تحت آج کئی خواتین خود مختار ہیں، اپنا اور اپنے بچے کا بوجھ اٹھانے کی اہلیت رکھتی ہیں؟ کئی ایسے شادی شدہ جوڑے ہیں جو معاشرے کو اولاد نہ صحیح مگر نیک ، صالح اورقابل شہری دے سکتے ہیں۔ لکیر کے فقیر کی طرح ہم میں سے کوئی یہ تبدیلی لانے کے لیے تیار نہیں۔ ہم یتیم بچوں کو سڑکوں پر بھیک مانگتے دیکھ سکتے ہیں مگر انہیں تعلیم دلوانے کیلئے ان فرسودہ قوانین سے لڑ نہیں سکتے۔ ایک معصوم بچہ اس ملک کا شہری ہو کر بھی شناخت حاصل نہیں کر سکتا۔ اس ملک میں پیدا ہونے کے باوجود تعلیم حاصل نہیں کر سکتا۔ کفیل کے ہوتے ہوئے بھی نام نہیں لے سکتا۔ خاندان کے ہوتے ہوئے بھی ان کا بن نہیں سکتا۔ جوان ہونے پر اپنی اولاد کو نام نہیں دے سکتا۔ کیونکہ وہ خود بے نام رہتا ہے! ب فارم، شناختی کارڈ، پاسپورٹ، بینک اکاوئنٹ سب باپ کا نام مانگتے ہیں ، چاہے وہ جھوٹا ہی کیوں نہ ہو! کیا کوئی ان بے نام شہریوں کو شناخت دے گا؟ کیا کوئی ان بچوں کو تعلیم و تربیت کا بنیادی حق دے گا؟ کیا کوئی اس قانون کو بدلے گا؟ کیا کوئی انسانیت کو سیاست پر ترجیح دے گا؟ مجھے ایک شخص سے امید ہے۔ جس نے کئی بار ہماری نشاندہی پر کیسز کا ازخود نوٹس لیا ہے۔ کئی مظلوموں کی خاموشی کو زبان دی ہے۔لٹی ہوئی قوم کیلئے آواز بلند کی ہے! کیا آج میں امید رکھوں کہ ہمارے چیف جسٹس، ہمارے قانون کے محافظ اس قانون پر نظر ثانی کریں گے؟ بے زبان یتیموں اور ان کے دکھی دل کفیلوں کو انصاف دیں گے؟ مجھے یہ امید ہے۔کیونکہ آج باپ کے نام سے بلائے جانے والے، کل صرف ماں کے نام سے پکارے جائیں گے!! ۔
No comments:
Post a Comment